دہلی دروازہ
دہلی دروازہ لاہور، پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور کے مقام پر واقع ہے۔ دہلی دروازہ مغلیہ دور حکومت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اندرون شہر کے راستوں پر تعمیر شدہ تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ جس علاقے میں یہ دروازہ واقع ہے وہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں۔ مسجد وزیر خان بھی اسی درواز ے کے قریب واقع ہے۔یہ دروازہ دہلی کی جانب ہے اس لیے دہلی دروازہ کہلاتا ہے۔یہ لاہور کے مشرق میں، ریلوے اسٹیشن کے قریب،مسجد وزیر خان اس کے اندر واقع ہے۔
دہلی دروازہ اصل میں مغل دور میں بنایا گیا تھااور اب اسے چٹا گیٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو کہ نئی دہلی دروازے سے تقریباً 100 میٹر مغرب میں ہے۔ اس دروازے کا نام دہلی کے نام پر رکھا گیا کیونکہ دروازہ اس شہر کی عمومی سمت میں مشرق کی طرف کْھلتاتھا۔ مغل دور میں یہ دروازہ لاہور کے مرکزی دروازے کے طور پر کام کرتا تھا اور ہر شام اس کے دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔ آس پاس کے علاقے میں تاریخی اہمیت کی کئی عمارتیں شامل ہیں جن میں 17ویں صدی کی وزیر خان مسجد،شاہی حمام اور حویلیاں شامل ہیں۔لاہور شہر کے ارد گرد اصل 13 دروازے تیسرے مغل شہنشاہ اکبر نے 1600 کے وسط میں بنائے تھے۔
یہ دروازہ کبھی لاہور کے شہر کی دیواروں کا حصہ تھا، جسے انگریزوں نے 1857 کے سپاہی بغاوت کے بعد گرا دیا تھا۔ برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد اس گیٹ میں لڑکیوں کا ایک اسکول تھا۔ اس دروازے کا تذکرہ روڈیارڈ کپلنگ نے اپنی 1891 کی مختصر کہانی ”خوفناک رات کا شہر“ میں کیا ہے۔ لاہور کی مشہور زمزمہ بندوق اصل میں دہلی گیٹ پر رکھی گئی تھی لیکن انگریزوں نے اسے لاہور میوزیم کے سامنے والی جگہ پر منتقل کر دیا تھا۔
یہ گیٹ ایک دو منزلہ ڈھانچہ ہے جس میں دس سے بارہ دکانوں کی جگہ ہے۔ گیٹ کی چھت تک سیڑھی کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ گیٹ وزیر خان مسجد کی طرف جانے والے بازار میں کھلتا ہے اور آگے شاہ عالم مارکیٹ اور سوہا بازار کی طرف جاتا ہے۔ مشہور مسالا بازار اکبری منڈی بھی دہلی دروازے کے ساتھ ہی واقع ہے۔
Daily Program
