بھاٹی دروازہ یا بھٹی دروازہ
یہ دروازہ شہر قدیم کی فصیل میں جنوبی جانب واقع ہے۔ فصیل میں بھاٹی دروازے کی دائیں جانب موری جبکہ بائیں جانب ٹکسالی دروازہ ہے۔ اس کے سامنے لوئر مال ہے جو آگے جا کر ملتان روڈ بن جاتا ہے۔بھاٹی دروازے کے دائیں جانب تانگوں کا اڈہ اور خالی میدان تھا جہاں سرکس کمپنیاں سرکس لگاتی تھیں جبکہ الٹے ہاتھ پر مسجد و مزار غلام رسول ہے۔ یہ بزرگ ”بلیوں والی سرکار“ کے نام سے مشہور ہیں۔ دروازے کے بالکل پاس الٹے ہاتھ پر ایک بڑا درخت ہے جس کی شاخوں نے جھک کر دروازے کا منظر چھپایا ہوا ہے۔
بھاٹی گیٹ کی بیرونی جانب سرکلر روڈ سے پرے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور اس کے قریب ہی کربلا گامے شاہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شہر ِقدیم سے داتا گنج بخش علی ہجویری کے مزار تک آنے کے لیے یہ دروازہ بنایا گیا تھا۔ ملک ایاز کے زمانے میں یہاں بھٹ قبیلے لوگوں کو رہائش اختیار کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی اور انہوں نے صدیوں اس دروازے کے اندر قیام کیا اور ان کی مناسبت سے ہی دروازے کا نام بھاٹی دروازہ مشہور ہو گیا۔ بھٹ قبیلے کے لوگ تالا سازی کے پیشہ سے منسلک رہے۔ غزنوی عہد کا شہر قدیم یہاں اختتام پذیر ہوتا تھا اور اکبر کے عہد میں جب شہرِ قدیم کو نو گزروں میں تقسیم کیا گیا تو تلواڑہ گزر اور مبارا خان گزر بھاٹی دروازے کے پاس باہم ملتی تھیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھاٹی دروازے کا اصل نام بھٹی دروازہ تھا اور یہی وہ مقام تھا جہاں مغلوں کی سلطنت سے پہلے بھٹی قوم کے جنگجو دلیروں نے فتح ملتان کے بعد لاہور آ کر پڑاؤ ڈالا تھا۔پھر گزرتے زمانے کے ساتھ بگڑتے بگڑتے بھٹی سے بھاٹی دروازہ ہو گیا۔بھاٹی گیٹ کے باہر کھلے میدان میں روایتی تھیٹر کمپنیاں اور سرکس لگتے تھے۔ ہو سکتا ہے اس کی ایک وجہ دربار حضرت داتا گنج بخش بھی ہو کہ عرس کے موقع پر اسی طرح کی تفریحات معمول کا حصہ ہیں تاہم 1938ء میں جب فلموں کا رواج ہوا تو یہ تھیٹر کمپنیاں آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھونے لگیں تب یہاں تین سینما گھر تعمیر ہو گئے۔
علمی و ادبی اور تاریخی حوالے سے اندرون بھاٹی گیٹ کا علاقہ ہمیشہ ہی مرکز و منبع رہا ہے۔ مشہور تاریخی اور لاہور کی ابتدائی مسجد ”اونچی مسجد“ بھاٹی دروازے کے اندر واقع ہے۔ سکھوں کے عہد کے آخری دو عشروں میں یہاں بہت سی حویلیاں تعمیر کی گئیں، جن میں سے زیادہ تر آج موجود نہیں ہیں۔ بھاٹی بازار، بازار حکیماں اور ٹبی بازار سے ہوتا ہوا شاہی محلہ تک چلا جاتا ہے جہاں ٹکسالی دروازے سے سڑک آ کر مل جاتی ہے۔
کوچہ فقیر خانہ اور فقیر خانہ میوزیم بھی بھاٹی دروازے کے اندرونی حصے میں واقع ہیں۔ ذوالجناح کا جلوس جو اندرون لاہور سے کربلا گامے شاہ جا کر ختم ہو جاتا ہے، بھاٹی دروازے میں سے ہی گزرتا ہے۔ بے شمار علمی و ادبی شخصیات بازار حکیماں اور تحصیل بازار میں قیام پذیر رہیں۔اقبال لندن سے لاہور آکر رہائش پذیر ہوئے تو انہوں نے بھاٹی دروازے کے محلہ جلوٹیاں کو اپنا مسکین بنایا، جہاں ان کے دوست رہتے تھے۔ لاہور کی اولین ادبی انجمن جس کے اجلاس حکیم امین الدین بیرسٹر کے مکان پر ہوتے تھے،یہیں قائم ہوئی۔ اس انجمن کی بنیاد مشہور ڈرامہ نویس حکیم احمد شجاع پاشا کے والد اور فلمی ہدایت کار انور کمال پاشا کے دادا نے رکھی۔ مسلم لیگ کا ترجمان ”خالد“ نامی اخبار بھی بھاٹی دروازے سے ہی شائع ہوتا تھا۔
فن تعمیر کے حوالے سے بھاٹی، شیرانوالہ اور کشمیری دروازہ ایک جیسے ہیں۔ البتہ سطحی نقشے کے اعتبار سے بھاٹی دروازہ، شیرانوالہ اور کشمیری دروازے سے مختلف ہے۔بھاٹی دروازہ اپنی ظاہری سطح پر یوں تو گوتھک اندازِ تعمیر کی دوہری کمان پر مشتمل ہے مگر دروازے کے بائیں اور دائیں جانب دو لمبی بیرکیں ہیں جن کے سامنے برآمدے بنے ہوئے ہیں۔ ان بیرکوں کی بیرونی دیواریں شہر کی فصیل کی جگہ لیے ہوئے ہیں۔ دائیں اور بائیں دونوں جانب دو دروازے ڈیوڑھی میں کھلتے ہیں۔ لمبائی کے اعتبار سے بھاٹی دروازہ دیگر دروازوں کی عمارات سے طویل ترین ہے اس کی لمبائی 187فٹ تک پہنچتی ہے۔
دروازے کی بڑی ڈاٹ کو دو ستون سہارا دئیے ہوئے ہیں ہر ستون پر اوپر نیچے مستطیل چوکھٹے بنے ہوئے ہیں۔ ڈیوڑھی کی چھت بھی گوتھک انداز کی ڈاٹ سے بنی ہے۔ ڈیوڑھی کا حصہ دائیں اور بائیں ملحقہ بیرک کی عمارت سے خاصا بلند ہے۔ ڈاٹ کے دونوں اطراف بیرونی جانب مرغولے بنے ہوئے ہیں جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔
Daily Program
