ڈیوڈ ڈچفیلڈ
ڈیوڈ ڈچفیلڈ شراب پینے کے عادی تھے اور اْس وقت اْن کی عمر 46 سال تھی۔ یہ 2006 کی بات ہے اور لندن میں اْن کی زندگی غیر یقنی صورتحال کا شکار تھی۔اس مایوس کن صورتحال میں ڈیوڈ اپنی بہن کے پاس کیمبرج شائر نامی قصبے میں کچھ وقت گزارنے کے لیے چلے گئے۔ یہاں اْن کی ایک دوست اْن سے ملنے آئی اور وہ انھیں واپسی پر چھوڑنے کے لیے ریلوے سٹیشن گئے۔آگے جو ہوا اِس کے باعث اْن کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی۔ جاتے وقت ان کا کوٹ ٹرین کے دروازے میں پھنس گیا اور پھر ٹرین کے دروازے بند ہو گئے۔جیسے ہی ٹرین چلنا شروع ہوئی، ڈیوڈ پلیٹ فارم پر گھسیٹتے ہوئے پٹریوں پر آ گرِے اور شدید زخمی ہو گئے۔ اس دوران اِن کا ایک بازو بری طرح زخمی ہو گیا۔پٹڑی پر لیٹے ہوئے اْنھیں ایک غیر معمولی اور انوکھا روحانی تجربہ ہوا۔ اس کے بعد انھیں زخمی حالت میں قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں اِن کی سرجری کی گئی۔
اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈیوڈ نے بتایا کہ وہ ایسا لمحہ تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ میں اپنے جسم کو چھوڑ چکا ہوا۔ میرے جسم کو جو خوفناک درد محسوس ہو رہا تھا وہ ختم ہو چکا اور میں بالکل پرْسکون ہو گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ میں نے نظر اْٹھا کر دیکھا تو سفید روشنی کی تین شعاعیں میرے اِردگرد پھیلی ہوئی تھیں جو میرے قریب آ رہی تھیں۔ شعاعیں بہت روشن اور انتہائی پاکیزہ بھی تھیں۔یعنی میں ان شعاعوں کو دیکھ سکتا تھا اور مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میرے اِردگرد پھیلی ہوئی روشنی میرے جسم سے گزر تے ہوئے مجھے شفا دے رہی تھی۔
ڈیوڈ کا دعویٰ ہے کہ انھیں اپنے اردگرد فرشتوں کی موجودگی کا احساس بھی ہوا۔ ایسا محسوس ہوا کہ وہ میرے زخموں پر مرہم لگا رہے ہوں۔
زندگی میں پہلی بار مجھے اپنا آپ مکمل محسوس ہونے لگا اور اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی زندگی کے دوران کیا کرتا رہا ہوں۔
ڈیوڈ کو اس سے پہلے کبھی موسیقی سے زیادہ لگاؤ نہیں تھا لیکن بغیر کسی تجربے کے وہ کلاسیک موسیقی کی دھنیں کمپوز کر چکے ہیں اور ایسی پینٹنگز بنا چکے ہیں جو اِن کی صحت یابی کے دوران جذبات کی عکاسی ہیں۔ان کی دھنوں کو مقامی طور پر بجایا گیا ہے اور ان کی تصاویر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کے میوزیم آف دی بائبل میں آویزاں کی گئی ہیں۔
ڈیوڈ کو محسوس ہونے والا یہ روحانی تجربہ وقتی بھی تھا اور برقرار رہنے والا بھی۔وہ کہتے ہیں کہ وہ اب خود کو مکمل طور پرمطمعن محسوس کرتے نیز با مقصد زندگی گزار رہے ہیں اور کائنات کی توانائی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ محسوس کر رہے ہیں۔اب جبکہ وہ صحت یاب ہو چکے ہیں اور ان کا بازو پوری صلاحیت سے کام کر رہا ہے تو انھیں موت سے ڈر نہیں لگتا۔ڈیوڈ کے مطابق ان کے تجربات مذہبی سے زیادہ روحانی نوعیت کے تھے۔
ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر سٹیو ٹیلر نے شدید درد اور اس کے بعد ہونے والے روحانی تجربے کے درمیان تعلق پر تحقیق کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ڈیوڈ جیسا تجربہ حیران کن طور پر خاصاً عام ہے اور ایسے تجربات کے بعد لوگ اپنی شناخت روحانی شخصیت کے طور پر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سٹیو ٹیلر کہتے ہیں کہ جب آپ موت کو اتنے قریب سے دیکھتے ہیں تو یہ تجربہ اتنا زبردست اور حقیقی ہوتا ہے کہ جو آپ کو مجبور کر دیتا کہ حقیقی دنیا کو ایک مختلف انداز سے دیکھیں۔
ڈاکٹر ٹیلر کہتے ہیں کہ دنیاوی ذہنیت کے حامل لوگوں کو عموماً ایسا تجربہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اس طرح کے مافوق الفطرت تجربے کے بعد کوئی شخص مذہبی ہو جائے۔
ڈیوڈ ڈچفیلڈ اب وہ بہت روحانی ہو گئے ہیں اور مذہبی روایات کا احترام کرتے ہیں، لیکن وہ خود اتنے مذہبی نہیں ہوئے ہیں۔
ایسے روحانی تجربات کے بارے میں ڈاکٹر سٹیو ٹیلر کو ڈیوڈ کی کہانی خاصی منفرد لگتی ہے۔ تاہم وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ تجربات اتنے پْراسرار ہیں کہ اکثر لوگ انھیں قبول نہیں کر سکتے۔
وہ کہتے ہیں کہ بطور انسان ہم حقیقی دنیا کو بیان کر سکتے ہیں لیکن ہم مکمل طور پر ایسا نہیں کر سکتے۔ کچھ چیزیں اتنی عجیب ہوتی ہیں کہ ہم انہیں سمجھ نہیں پاتے۔