نوری جام تماچی
سندھ کے لوک ادب کی کہانیوں میں نوری جام تماچی کی کہانی ہے۔ جس میں علاقائی حکمران جام تماچی ایک خوبصورت عورت نوری پر عاشق ہوجاتا ہے۔سمہ دور ِحکومت میں مشہور حاکم ”جام تماچی“ کے عہد میں ”کینجھر جھیل“ کے کنارے بہت سے مچھیرے آباد تھے۔ ان مچھیروں کا رہن سہن عموماً کشتیوں ہی میں ہوتا تھا۔ مرد مچھلیاں پکڑتے تھے اور ان کی عورتیں مچھلیوں کو فروخت کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ان مچھیروں کے یہاں ایک نہایت خوبصورت لڑکی پیدا ہوئی۔ لڑکی اتنی حسین و جمیل تھی کہ مچھیروں کی پوری آبادی اسے دیکھنے آنے لگی۔ لڑکی کی جگمگاتی اور پرنورصورت دیکھنے کے بعدبستی کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس لڑکی کا نام ”نوری“ رکھا جائے۔ ”نوری“ جوں جوں بڑی ہوتی گئی، اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا رہا۔ وہ انتہائی حسین و جمیل تھی، اس کے حسن کے چرچے زبان زد عام تھے۔۔
ایک دن ”جام تماچی“ جسے سیر و شکار کا بہت شوق تھا، اپنی شاہی کشتی میں بیٹھ کر ”کینجھر جھیل“ کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظرنوری پر پڑی اور وہ اس کے حسن سے اتنا متاثر ہواکہ واپس اپنے محل میں آ کر اسی کے بارے میں سوچنے لگا۔ اب نوری کی سادگی اس کی آنکھوں میں گھوم رہی تھی۔ جام تماچی نے فیصلہ کیا کہ وہ ”نوری“ سے شادی کرے گا۔ ذات پات کے سب بندھن اس کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس نے ”نوری“ کے رشتہ داروں کو اپنے محل میں طلب کیا۔ نوری کے سبھی عزیز و اقارب اس خبر کو سن کر بہت ہی خوش تھے کہ ان کا حاکم نوری سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
”جام تماچی“ کے حکم سے، خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ مچھیروں سے جو محصول لیا جاتا تھا، اسے بھی معاف کر دیا گیا۔ غریب مچھیروں کے دن پھر گئے۔ اب وہ مچھیرے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے لگے۔ نوری شاہی محل میں رہنے لگی۔ نوری اور جام تماچی اکثر شاہی کشتی میں بیٹھ کر کینجھر جھیل کی سیر کرتے اور اسی طرح کی سیروتفریح سے دل بہلاتے۔ شاہی محل میں جام تماچی کی دوسری رانیاں نوری کو حسد سے دیکھتیں کیونکہ نوری کی اہمیت شاہی محل میں بہت بڑھ گئی تھی۔ جام تماچی نے نوری کو مہارانی کا درجہ دے دیا تھا یعنی محل کی تمام رانیوں پر نوری کی اطاعت اور فرماں برداری لازم تھی۔ جام تماچی کو نوری کی سادگی اور معصومیت بہت پسند تھی یہی وجہ تھی کہ نوری، مہارانی کے درجے تک جا پہنچی۔
بادشاہ نے نوری کو نہ صرف اپنے محل میں عزت سے نوازا بلکہ پورے ٹھٹہ میں نوری کی عزت پورے شاہ و جلال کے ساتھ کروائی گئی۔
جام تماچی کی سات ملکائیں کوئی بھی نوری کے حسن کے برابر نہ تھی اور اسی بات سے تمام ملکاؤں نے نوری کے لئے حسد دل میں رکھی۔ نوری صاف دل کی مالک تھی اس کے لئے تمام نوکر اور درباری برابر تھے۔
بادشاہ کی سات ملکائیں نوری کے خلاف سازشیں کرتی رہتیں اور بادشاہ کے کان بھرتی رہتیں۔ مگر بادشاہ اپنی محبت پر قائم تھا اسے کوئی فرق نہ پڑا۔لیکن ایک روز درباریوں اور ملکاؤں نے بادشاہ کو بہکا دیا کہ نوری لکڑی کے بکس میں زیورات بھر کر اپنے بھائی کو ہر تیسرے دن دیتی ہے۔بادشاہ نے جب واقعہ کی کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ نوری کو شاہی کھانے نہیں پسند تھے کیونکہ وہ مچھلی اور اس کے کانٹے کھاتی رہی تھی اور اس کے گھر سے بھائی کے ہمراہ بکس میں صرف مچھلی اور اس کے کانٹے آتے ہیں۔
یہ وہ موقع تھا کہ جب نوری کی محبت سے بادشاہ کا دل سرشار ہوگیا اور نوری دنیا کی ایک خوش نصیب ملکہ بن گئی۔ لیکن افسوس قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ نوری کی موت جام تماچی کی زندگی میں ہی ہوگئی۔
اس غم سے بادشاہ ٹوٹ چکا تھا اور اس کی یاد میں بادشاہ نے کینجھر جھیل کے بالکل درمیان میں نوری کا مقبرہ بنوایا اور اپنی زندگی کی آخری لمحات اسی مقبرے پر گزارے۔ یوں اس مقبرے کا نام نوری جام تماچی کہلایا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ مقبرہ اس شاندار فنِ تعمیر کی مثال آپ ہے جو پانی پر بنا ہوا ہے اور کبھی ڈوبتا نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف ایک قبر نہیں بلکہ پورا مقبرہ ہے جو عمارت کی مانند پکا تعمیر کروایا گیا ہے۔ اپنے قیام سے آج تک وہ اسی جگہ پر موجود ہے۔