مرزا صاحباں
مرزا صاحباں پنجابی کی چار کلاسیکی رومانوی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ مرزا کی تاریخ پیدائش 28 مارچ 1586ء بتائی جاتی ہے اور صاحباں اس سے ایک سال چھوٹی تھی۔مرزا دانا باد کا کھرل تھا جو اپنے نانکے کھیوے میں پلا بڑھا تھا۔
پنجاب کی لوک داستانوں میں سے مرزا صاحباں کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ تاریخ دان میاں نور محمد چیلہ کی لکھی گئی کتاب 'تاریخ جھنگ سیالاں ' کے مطابق مرزا صاحباں کا تعلق ہیر کی گیارہویں پشت سے تھا۔ جھنگ کے نواحی موضع ستیانہ کی بنیاد رکھنے والے ستی خان کے ہاں بیٹے کھیوہ خان (صاحباں کا باپ) کی پیدائش ہوئی جس کے تین ماہ بعد اس کی بیوی وفات پا گئی۔ اکلوتے بچے کی پرورش کے لیے واڑھ سلیمان سے مڑہل خاندان کی خاتون نور بی بی کو بلایا گیا جس نے اپنی بچی فتح بی بی (مرزا کی ماں) کے ساتھ کھیوہ خان کو بھی دودھ پلایا اور یہ دونوں دودھ شریک بہن بھائی بن گئے۔ سیال سردار سوم غازی خان نے موضع کھیوہ کی بنیاد رکھنے پر سردار کھیوہ کو ''خان'' کے خطاب سے نوازا۔ فتح بی بی نے جب یہ سنا کہ اس کا دودھ شریک بھائی ایک سردار بن گیا ہے تو اس نے اپنے کم عمر بیٹے مرزا کو اس کے پاس تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا۔ یوں مرزا اور صاحباں ایک مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے لگے اور کم عمری سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔
تاریخ دان ایک واقع پر متفق ہیں کہ ایک بار معلم نے مرزا کو اپنی چھمک سے مارا تو صاحباں نے اپنی ہتھیلی بند کر لی اور جب اس نے ہتھیلی کھولی تو اس پر چھمک کے نشان تھے۔ یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور مرزا کو واپس اس کی ماں کے پاس بھیج دیا گیا لیکن تب تک عشق دلوں میں گھر کر چُکا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ مرزا ایک بہترین تیر انداز اور گھڑ سوار بن چکا تھا۔ صاحباں کے ایک ملازم کے ذریعے مرزا کا اس سے رابطہ تھا جس کا نام تاریخ میں کرموں ملتا ہے۔ مرزا کے چلے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد کھیوہ خان نے صاحباں کا رشتہ چدھڑ خاندان میں طے کر دیا جبکہ مرزا کا رشتہ اس کی ماں نے ساہی خاندان میں طے کر دیا۔شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں تو صاحباں نے کرموں کو مرزا تک اس کی شادی کی اطلاع پہنچانے کے لیے بھیجا۔ جب کرموں نے اطلاع مرزا کو پہنچائی تو مرزا ترکش اور تیر کمان سے لیس ہو کر اپنی ''بکی'' نامی گھوڑی پر سوار ہوا اور صاحباں کو لینے نکل کھڑا ہوا۔
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جب مرزا گھر سے نکلا تب اس کی بہن کی شادی ہو رہی تھی اسی وجہ سے ماں اور بہن نے روکنے کی کوشش کی لیکن عشق تھا کہ ہر رشتہ بُھلا گیا۔ مرزا سیدھا صاحباں کے علاقے میں پہنچا اور شادی والے گھر سے صاحباں کو لے کر نکل گیا اس وقت گھوڑی کے قدموں کی ٹاپ نے ڈھولکی کی تھاپ کو نیچا دکھا دیا اور یوں وہ سفر شروع ہوا جس کی منزل مرزا کی موت ٹھہری۔ تاریخ دان لکھتے ہیں چونکہ جاٹ بہنوں کے معاملے میں کافی محتاط ہوتے ہیں اس لیے مرزا نے بہن کی ڈولی اٹھ جانے کے بعد رات کی تاریکی میں گھر جانے کا فیصلہ کیا اور راستے میں ایک درخت کے نیچے تھکان اتارنے کے لیے سو گیا۔
صاحباں نے مرزا کے تیر توڑ دیے کیونکہ یہ جانتی تھی کہ وہ ایک قابل تیر انداز ہے اور یہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ مرزا کے نشانے پر اس کے بھائی ہوں۔ صاحباں کا خیال تھا کہ وہ اپنے بھائیوں کو منا لے گی لیکن اُس کے بھائیوں نے اس کی ایک نہ سنی اور مرزا کو مار دیا۔ مرزا صاحباں کے بھائیوں سے نہیں بلکہ اس کی بے وفائی سے ہی مر گیا تھا اور یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ مرزا کے مرنے کے وقت بھی اس کی زبان پر صاحباں کا نام تھا۔ اس حوالے سے بہت سی متضاد روایات ملتی ہیں۔ کچھ کے مطابق صاحباں مرزا کو بچاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی اور کچھ کے مطابق اس کے بھائی اسے محل واپس لے گئے اور وہاں پر اسے مار دیا گیا۔