شطرنج کا کھیل (چیس بورڈ رائس یاسیکنڈ ہاف آف دی چیس بورڈ)

شطرنج، جسے بادشاہوں کا کھیل بھی کہا جاتا ہے، ساری دنیا میں مقبول ہے۔ اس کا شمار قدیم ترین اور مشکل ترین کھیلوں میں ہوتا ہے۔ موجودہ شطرنج اپنی قدیم شکل سے کافی مختلف ہے۔ اس کھیل کی تاریخ تقریباً 1500 سال پر محیط ہے اور اس تمام عرصے میں اس نے بھارت سے لے کر مغرب تک کا سفر کیا ہے۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ شطرنج کا آغاز چھٹی صدی قبل مسیح میں بھارت میں ہوا، البتہ کچھ تاریخ دان مانتے ہیں کہ اس کا آغاز چین سے ہوا۔ بھارت سے یہ کھیل ایران پہنچا اور جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا ہوا بعد ازاں مغربی ممالک کا رُخ کیا تو یہ کھیل جنوبی یورپ تک پہنچ گیا۔ یورپ میں اس کی جدید شکل 18ویں صدی میں سامنے آئی۔ اس دور کو شطرنج کا ’رومانوی دور‘ کہا جاتا ہے۔ ان دنوں بازی جیتنے سے زیادہ اسے کھیلنے کا انداز اہم سمجھا جاتا تھا اور اسے ایک آرٹ کا درجہ حاصل تھا۔ پہلی عالمی شطرنج چیمپیئن شپ کا انعقاد 1886میں ہوا۔
بھارت میں چھٹی صدی کے گپتا حکمرانوں کے دور میں اسے ’چترنگا‘ کہا جاتا تھا جس کا مطلب ’چار حصے‘ تھا۔ ان چار حصوں سے مراد فوج کے چار ڈویژن یعنی پیدل، توپخانہ، رتھ سوار اور گھڑ سوار، تھا۔ انہیں چار فوجی اقسام کی بنیاد پر شطرنج میں پیدل، فیل، توپ اور گھوڑے کے مہرے وجود میں آئے۔ آج بھی بھارتی اور مغربی اندازشطرنج کی دو مقبول اقسام ہیں۔
برصغیر میں ساڑھے تین ہزار سال قبل گپتا خاندان کی حکومت قائم تھی اور اس دور میں ایک ”سیسا“نامی شخص نے شطرنج ایجاد کی۔ سیسا شطرنج کا کھیل لے کر بادشاہ کے پاس حاضر ہوا تو بادشاہ بہت خوش ہوا اور اسی خوشی کے عالم میں سیسا سے پوچھا کہ”مانگو کیا مانگتے ہو“سیسا نے چند لمحے سوچا اور بادشاہ سے کہا کہ ”حضور چاول کے چند دانے“بادشاہ نے پوچھا ”کیا مطلب“سیسا بولا”آپ شطرنج کے 64خانے شطرنج سے بھر دیں لیکن میرے فارمولے کے مطابق“بادشاہ نے پوچھا ”یہ فارمولا کیا ہے“سیسا بولا ”آپ پہلے دن پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھ کر مجھے دے دیجئے،دوسرے دن دوسرے خانے میں پہلے خانے کے مقابلے میں دگنے چاول یعنی چاول کے دو دانے رکھ دیجئے۔ تیسرے دن تیسرے خانے میں دوسرے خانے کے مقابلے میں پھر دگنے چاول یعنی چار دانے رکھ دیں اور اسی طرح آپ ہر خانے میں چاولوں کی مقدار کو ڈبل کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ چونسٹھ خانے پورے ہو جائیں“۔
بادشاہ نے سیسا کے اس بیوقوفانہ مطالبے پر قہقہہ لگایااور یہ شرط قبول کرلی، اور پھر یہاں سے دنیا کی وہ گیم شروع ہوئی جس سے آج مائیکرو سوفٹ جیسی کمپنیوں نے جنم لیا۔یہ بظاہر تو آسان سے کام دکھائی دیتا ہے لیکن یہ دنیا کا مشکل ترین معمہ تھااور آج ساڑھے تین ہزار سال گزرنے کے بعدشطرنج کے 64خانوں کو چاولوں سے بھرنا ممکن نہیں۔بادشاہ نے پہلے دن شطرنج کے پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھا اور اسے اٹھا کر سیسا کو دے دیا، سیسا چلا گیا، دوسرے دن دوسرے خانے میں چاول کے دو دانے رکھ دئیے گئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں چاولوں کی تعداد چار ہو گئی، چوتھے روز آٹھ چاول ہو گئے، پانچویں دن ان کی تعداد 16ہو گئی،چھٹے دن یہ 32ہو گئے، ساتویں دن یہ 64ہو گئے، آٹھویں دن یعنی شطرنج کے بورڈ کی پہلی رو کے آخری خانے میں 128چاول ہو گئے، نویں دن ان کی تعداد 256ہو گئی دسویں دن یہ 512ہو گئے، گیارہوں دن ان کی تعداد 1024ہو گئی، بارہویں دن یہ 2048ہو گئے،تیرہویں دن ان کی تعداد 4096، چودہویں دن یہ 8192ہو گئے، پندرہویں دن یہ 16384ہو گئے۔سولہویں دن یہ 32768ہو گئے اور یہاں پہنچ کر شطرنج کی دو قطاریں مکمل ہو گئیں اور بادشاہ کو تھوڑا تھوڑاسا اندازہ ہونے لگا کہ وہ مشکل میں پھنس چکا ہے کیونکہ وہ خود اور اس کے سارے وزیر مشیر سارا دن بیٹھ کر چاول گنتے رہتے تھے۔شطرنج کی تیسری قطار کے آخری خانے تک پہنچ کر چاولوں کی تعداد 80لاکھ تک پہنچ گئی اور بادشاہ کو چاولوں کو میدان تک لانے اور سیسا کو یہ چاول اٹھانے کیلئے درجنوں لوگوں کی ضرورت پڑ گئی۔قصہ مختصریہ کہ جب شطرنج کی چوتھی رو یعنی 33واں خانہ شروع ہوا توپورے ملک سے چاول ختم ہو گئے، بادشاہ حیران رہ گیا۔ اس نے اسی وقت ریاضی دان بلوایا ور ان سے پوچھا کہ شطرنج کے 64خانوں کیلئے کتنے چاول درکار ہونگے اور ان کیلئے کتنے دن چاہئیں۔
بادشاہ کے وہ ریاضی دان کئی دنوں تک بیٹھے رہے لیکن وہ وقت اور چاولوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگا سکے۔ یہ اندازہ ساڑھے تین ہزار سال بعد بل گیٹس نے لگایا تھا۔بل گیٹس کا خیال ہے کہ اگر ہم ایک کے ساتھ انیس19زیرو لگائیں تو شطرنج کے 64خانوں میں اتنے چاول آئیں گے۔بل گیٹس کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایک بوری میں ایک ارب چاول بھریں تو ہمیں چاول پورے کرنے کیلئے 18ارب بوریاں درکار ہوں گی۔اور ان چاولوں کو گننے،شطرنج پر رکھنے اور اٹھانے کیلئے ڈیڑھ ارب سال چاہئیں۔ 
آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔مگر یہ یاد رکھئیے کہ یہ حساب عام کلکولیٹر کے ذریعے نہیں لگایا جا سکے گا، یہ صرف کمپیوٹر کے ذریعے ہی کلکولیٹ کیا جا سکتا ہے۔اس ایشو کو مینجمنٹ کی زبان میں چیس بورڈ رائس یاسیکنڈ ہاف آف دی چیس بورڈ کہا جاتا ہے۔شطرنج بنانے والے اورگپتا بادشاہ کو اس خوفناک مسئلے میں پھنسانے والے سیسا کو بادشاہ نے شطرنج کی چوتھی رو پر پہنچ کر گرفتار کروا دیا تھا کیونکہ بادشاہ کو شطرنج کے ہاف میں پہنچ کر چاول پورے کرنے کیلئے ساڑھے پانچ دن لگ گئے تھے۔وہ اگلے خانوں کی طرف بڑھا تو ملک سے چاول ختم ہو گئے، جس سے بادشاہ جھلا اٹھا اور انتہائی غصے میں شطرنج بنانے والے کا سر قلم کروا دیااور یوں شطرنج کا موجد مارا گیا لیکن شطرنج کی سر دردی آج تک قائم ہے۔شطرنج بھارت سے ایران پہنچی، وہاں سے بغداد، بغداد سے سپین اور پھر سپین سے یورپ چلی گئی اور آج پوری دنیا میں کھیلی جا رہی ہے۔کہا یہ جاتا ہے کہ شطرنج سیاست جیسی گیم ہے جس میں پیادے سے لیکر بادشاہ تک سارے کردار موجود ہوتے ہیں بس ایک کردار نہیں ہوتا اور وہ کردار ہے جج۔ جی ہاں شطرنج میں جج نہیں ہوتا مگر سیاست میں ہوتا ہے۔

Tags

Daily Program

Livesteam thumbnail