عود
بنکاک کے ایک ایسا درخت موجود ہے جس کی قیمت 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز لگ چکی ہے۔ بلاشبہ یہ دنیا کا قیمتی ترین درخت ہے جسے عربی میں ”عود“ اور انگریزی میں Agerwood کہتے ہیں۔عود کی سب سے نایاب قسم ”کینام“ ہے جس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 9 ملین ڈالرز فی کلو ہے۔ کچھ عرصہ قبل شنگھائی میں کینام کا دو کلو کا ٹکڑا 1 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز میں فروخت ہؤا۔ عام طور پر عود کی قیمت اس میں موجود عرق کی مقدار پر منحصر ہوتی ہے جو 80 ہزار ڈالر فی لیٹر بکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی چھال دو سو ڈالر سے پانچ ہزار ڈالر فی کلو تک فروخت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس درخت میں ایسا کیا ہے جس کیلئے جاپانی سرمایہ کار اتنی قیمت دینے کیلئے تیار ہیں؟
عود کا شمار دنیا کے مہنگے ترین پرفیومز میں کیا جاتا ہے، جسے صرف عرب شہزادے اور امیر لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس درخت کے طبی فوائد کا ذکر کریں تو اس کی تاثیر خواب آور ہے۔ جوڑوں کے درد، جلدی امراض، ہاضمے کی خرابی اور کینسر میں فائدہ دیتا ہے۔ جو لوگ مراقبہ یا اسی قسم کی ذہنی مشقیں کرتے ہیں ان کے لئے عود کے بخارات موثر ہیں۔عود کی مانگ میں عالمی سطح پر دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر اس کی مارکیٹ 32 ارب ڈالرز کی ہے، جو اگلے آٹھ سال میں دگنی ہوجائے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اتنے فوائد کے باوجود اس درخت کی مانگ پوری نہیں ہورہی؟ سادہ الفاظ میں اس کی وجہ عود کی محدود پیداوار ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر درخت میں عود پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ خوشبو اٹھتی ہے بلکہ جب ان درختوں میں ایک خاص قسم کی پھپھوندی لگتی ہے تو اس میں سرخی مائل مادہ پیدا ہوتا۔ یہ مادہ دراصل پھپھوندی کے خلاف درخت کے مدافعتی کیمیکلز ہیں جن کے پیدا ہونے سے لکڑی کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ ایسی لکڑی کے ٹکڑوں یا برادے کو سلگا کر خوشبو کے حصول کے لئے یا اس میں سے عرق نکال کر صنعتی پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ قدرتی طور پر صرف 2 فیصد عود میں پھپھوندی پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں مصنوعی طور پر فنگل انفیکشن کرائے جاتے ہیں، جس کے لئے اس کے تنے پر چار انچ کے فاصلے پر کیل لگائے جاتے ہیں یا تنے میں انجیکشن لگائے جاتے ہیں۔
عام طور پر درخت دیکھنے سے پتا نہیں چلتا کہ اس میں عود پیدا ہوگیا ہے یا نہیں۔ اس لیے عود کی دن بدن بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لئے بے دریغ کٹائی کی جارہی ہے۔ آسام میں عود کے جنگلات معدوم ہوچکے ہیں۔ اگرچہ عود کی شجرکاری شروع ہوچکی ہے لیکن یہ طلب کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ عود کی زیادہ تر کاشت ویت نام، کمبوڈیا، چین، تھائی لینڈ، جاپان، سری لنکا اور بھارت میں کی جاتی ہے۔
پاکستان میں آب و ہوا اور زمین عود کی کاشت کے لئے سازگار ہے۔ یہ درخت کم از کم 5 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 42 ڈگری درجہ حرارت برداشت کرلیتا ہے، جبکہ 25 ڈگری درجہ حرارت پر اس کی نشوونما بہترین ہوتی ہے۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں مارچ اور اپریل اس کی کاشت کیلئے موسم موزوں ہوتا ہے۔عام طور پر 10 سال میں یہ درخت مکمل طور پر تیار ہوجاتا ہے لیکن آج کل 4 سال بعد اس کی فروخت شروع کردی جاتی ہے۔