خودکْشی کا پودا
قدرت کے کارخانے میں ایسے حشرات اور کیڑے مکوڑے موجود ہیں جن کا کاٹا انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے اور اس کا کرب مدتوں یاد رہتا ہے لیکن آسٹریلیا میں پایا جانے والا بظاہر عام سا پودا ”جمپی جمپی“ اگر بدن سے چھوجائے تو ایک ہی وقت میں بجلی کے جھٹکے، تیزاب اور گرم پانی سے جلنے جیسی تکلیف ہوتی ہے۔
اس پودے کا حیاتیاتی نام’’ڈینڈرو سنائیڈ موریو ڈیس‘‘ہے جو آسٹریلیا کے جنوبی ویلز میں عام پایا جاتا ہے۔ اس کے پتے دل کی شکل کے اور پھل خوبصورت بنفشی رنگ کے ہوتے ہیں۔ بظاہر بے ضرر لگنے والے اس پودے کے پتوں پر بہت باریک بال نما ابھار ہوتے ہیں جو سوئیوں کی طرح سخت ہوتے ہیں۔اگر یہ بال جلد میں اترجائیں تو شدید تکلیف ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تیزاب کی جلن، گرم پانی کی تپش اور بجلی کے جھٹکے کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ اس کی ہولناک تکلیف لوگوں کو بے حال کردیتی ہے جس کا احساس کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک بھی ہوسکتا ہے۔
اس پر تحقیق کرنے والی ایک سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کوئنزلینڈ میں بھی پایا جاتا ہے اور اس کا کاٹا تینوں تکلیفوں کا احساس دیتا ہے، اس کی تاثیر اتنی خوف ناک ہے کہ اگر آپ اس پودے کے پاس تھوڑی دیر بھی کھڑے ہوجائیں تو چھینکوں کا دورہ پڑجاتا ہے اور ناک سے خون بہنے لگتا ہے۔
1960ء میں برطانوی افواج نے جمپی جمپی پودے کے بعض نمونے لیے تھے اور انہیں کیمیائی جنگ میں استعمال کرنے کے تجربات شروع کیے تھے۔ آسٹریلیا کے مقامی افراد بتاتے ہیں کہ کئی مرتبہ گھوڑے کی جلد میں اس بوٹی کے بال پھنس گئے تو وہ تڑپ کر بھاگا اور درد سے بے حال ہوکر اس نے خود کو پہاڑ کی چوٹی سے گرالیا۔