باغِ زہر دنیا کا سب سے خطرناک باغ
انگلینڈ میں نارتھ ہمبرلینڈ میں ایلنوک کے مقام پر یہ ’پوائزن گارڈن 2005 میں بنا تھا۔ یہاں 100 سے زیادہ زہریلے اور نشہ آور پودے موجود ہیں۔سیاحوں کو اس باغ میں داخلے سے پہلے حفاظتی بریفنگ دی جاتی ہے کہ اس باغ میں وہ کسی بھی پودے کو نہ تو ہاتھ لگا سکتے ہیں نہ چکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سونگھ سکتے ہیں۔اس احتیاط کے باوجود کبھی کبھار کچھ سیاح اس زہریلی فضا میں چلتے ہوئے وہاں سانس لینے کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر کاشت کیے جانے والے خطرناک پودے مانکس ہُڈ، یا ’وولفس بین‘ ہے، جس میں ایکونیٹائن، جو کہ ایک نیوروٹوکسن اور کارڈیو ٹاکسن ہوتا ہے لیکن یہ سب سے بُرا نہیں۔یہاں جو سب سے زہریلا پودا ہے وہ رسین کا ہے جسے عام اصطلاح میں کیسٹر بین یا کیسٹر آئل پلانٹ کہا جاتا ہے۔گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ اسے دنیا کا سب سے زہریلا پودا مانتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ باغ میں اگنے والی بہت سی چیزیں بہت عام ہیں اور یہاں کے بہت سے پودے برطانیہ میں اگنے والے جنگلی پودے ہیں اور زیادہ تر پودوں کی کاشت خطرناک حد تک آسان ہے۔ یہاں تک کہ مشہور گھریلو باغی جھاڑیاں جیسے روڈوڈینڈرون بھی یہاں ہیں۔ ان پتوں میں گریانوٹوکسن ہوتا ہے جو کھانے سے انسان کے اعصابی نظام پر حملہ کرتا ہے۔ آپ کے پتے کھانے کا امکان نہیں ہے کیونکہ ان کا ذائقہ ناگوار ہوتا ہے۔
یہاں لیبرنم کا درخت ہے جو برطانیہ کا دوسرا سب سے زیادہ زہریلا درخت ہے۔ بہت سے لوگ ان کے خوبصورت پیلے پھولوں کی وجہ سے اپنے گھروں کے آس پاس رہنے دیتے ہیں مگر ان میں سائٹسائن نامی زہر ہوتا ہے۔اگر روڈوڈینڈرون کافی تعداد میں قریب قریب اْگ جائیں تو وہ زمین کو بھی زہر آلودہ کر سکتے ہیں۔ پھر اس زمین پر ان کے علاوہ اور کچھ نہیں اْگ سکے گا۔اگر شہد کی مکھیاں انہی پودوں سے شہد نکالیں تو وہ مائع لال رنگ کا ہو جاتا ہے جسے اگر کم مقدار میں استعمال کیا جائے تو یہ نشہ آور کیمیائی خصوصیت رکھتا ہے۔
کچھ پودے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ ان کو کھانے، چھونے یا سونگھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس باغیچے میں ایک ایسا پودا بھی ہے جس کی اگر آپ صرف صفائی کریں تو یہ آپ کو ہلاک کر سکتا ہے۔
پرونس لاروکیراسس نامی پودے، جسے چیری لارل یا انگلش لارل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اس میں دو ایسے اجزا ہیں جو الگ الگ ہوں تو بے ضرر ہوتے ہیں۔ یہ سیانو جینک گلائکوسائیڈز اور سائینائیڈ اونز ہی۔ لیکن اگر کوئی جانور پتوں کو چباتے ہوئے ان دونوں اجزا کو ملا لے یا کوئی انسان ان کو کاٹنے کی کوشش کرے تو یہ سائیناءِیڈ گیس خارج کرتے ہیں۔اس باغ میں کچھ ایسے پودے ہیں جہاں آپ کو کسی طرح کی حفاظت درکار نہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جہاں آپ مکمل حفاظتی سوٹ، فیس ماسک اور دستانوں کے بغیر نہیں جا سکتے۔
درحقیقت یہاں موجود بہت سے خطرناک پودے بیماریوں سے علاج کا ذریعہ ہیں۔ جیسا کہ ییو جو چھاتی کے سرطان کے علاج میں استعمال ہوتا ہے۔پیری ونکل پودا بھی دو دھاری تلوار ہے۔ اس کے اجزا مہلک ہو سکتے ہیں لیکن اگر ان کا درست استعمال کیا جائے تو ان سے مفید ادوایات بنائی جا سکتی ہیں۔