اپنی صلاح خود کیجئے!
ایک مرتبہ گول مٹول ساخوب صورت بچہ ندی کے پاس کھیل رہا تھا۔کھیلتے کھیلتے وہ ندی کے بالکل قریب پہنچ گیااوربہتاپانی دیکھ کرگھبراگیا۔اس گھبراہٹ میں وہ اپناتوازن برقرارنہ رکھ سکا اورندی میں گرِگیا۔تھوڑے فاصلے پر ایک شخص لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔اس نے بچے کوپانی میں ڈوبتے دیکھتا تودوڑکرآیااورفوراً ندی میں چھلانگ لگاکربچے کوکنارے پرلے آیا۔ پانی سے نکلنے کے بعد بچہ سہما ہوا تھا۔مہربان شخص نے اُسے تسلی دی اور اس کانام پوچھالیکن خوف کے مارے وہ خاموش تھا۔اس نے بچے کو گھرکے دروازے تک پہنچایااوروہیں سے واپس ہوگیا۔ وہ اپنے اْس عمل پر بہت خوش تھا۔کچھ دن بعد بچے کے والدین اس مہربان شخص کی تلاش میں گاؤں آئے۔ انھوں نے لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھاتوکسی نے بتایا کہ وہ ندی کے کنارے کام کرتاہے۔بچے کے والدین وہاں پہنچے۔مہربان شخص نے انھیں دیکھا تو سمجھ گیا کہ وہ لوگ اس کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔وہ بولا:”مجھے شکریہ یا انعام کی ضرورت نہیں۔میں نے انسانیت کے ناتے آپ کے بچے کی مدد کی تھی۔اس کی جان بچ گئی،میرے لیے یہی کافی ہے۔“
بچے کا باپ بولا:”نہیں،ہم آپ کو کچھ دینے نہیں آئے، ہم بس یہ پوچھنے آئے ہیں کہ کھیلتے وقت بچے نے ٹوپی پہنی تھی،جب تم نے اسے پانی سے نکالاتواس کے سر پر کچھ بھی نہیں تھا۔وہ ٹوپی کہاں ہے؟“مہربان شخص اس سردمہری پر حیران رہ گیا۔اس نے دُکھ سے کہا:”حضور! میں نے آپ کے بچے کی جان بچائی، آپ کو میرااحسان مندہوناچاہیے لیکن اس کے بجائے آپ کوٹوپی کی فکرکھائی جارہی ہے۔آپ توبہت ہی بے مروت ثابت ہوئے۔“
طوطاچشم کی اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو ضرورت کے وقت آنکھیں پھیرلیتے ہیں۔ان لوگوں کو اپنی چھوٹی چیز کی پروا توہوتی ہے لیکن دوسرے شخص کے بڑے احسان کو نظرانداز کردیتے ہیں۔یہ ناشکرا پن ہے جو اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ ایسا شخص دوسروں کی اچھائی کو اہمیت نہیں دیتااور احسان کو اپنا حق سمجھتاہے۔
آپ اگر جائزہ لیں تومعاشرے میں آپ کو اس سے ملتے جلتے رویے کثیرتعداد میں ملیں گے۔کئی لوگ ایسے ہیں جنھوں نے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ سالوں تک احسانات کیے لیکن بدلے میں انھیں کچھ نہیں ملا بلکہ بعض اوقات وہ لوگ اپنے محسن کے خلاف ہوجاتے ہیں اور اسے نقصان پہنچاتے ہیں۔کئی لوگ ایسے ہیں جنھوں نے کسی غریب کو سہارادیا، اسے اپنے پاؤں پرکھڑاکیااور کچھ عرصے بعد وہ اپنے محسن کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔ناشکرا پن دراصل ناقدرا پن ہے۔ایسا شخص اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اس کے پاس کتنی چیزیں ایسی ہیں جو اس کی زندگی کو بہتر بنارہی ہیں۔ نیز خدا نے اْسے کتنی نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کی وجہ سے وہ کامیابی، عزت اور مرتبہ حاصل کرچکا ہے۔
یادرکھیں! انسان جس چیز کی قدر ختم کرنا چاہتاہے وہ چیز اس انسان کی قدر ختم کردیتی ہے۔مطلب یہ ہے کہ کسی نعمت کی ناقدری کرنے کی وجہ سے اس انسان کی زندگی سے وہ نعمت ختم ہوجاتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کی محرومیوں اور مشکلات میں اضافہ ہوتاہے اور بعض اوقات یہ پریشانیاں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ انسان کا سکو ن اور چین ختم کردیتی ہیں۔درحقیقت قدراورشکر کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔جب انسان اس بات کو تسلیم کرلیتاہے کہ میری زندگی میں فلاں چیز کی اہمیت ہے تو اس کا شکر بھی ادا کرنے لگتاہے اور شکر گزاری کے متعلق خداکا وعدہ ہے کہ اگر تم شکرکروگے تو میں تمھیں اور عطا کروں گا۔
ہر وہ شخص جو رونے دھونے والا ہو، اس کی شکایات تو ختم نہیں ہوتیں البتہ اس کے پاس نعمتیں ختم ہوناشروع ہوجاتی ہیں۔اس کی مثال وائر س کی طرح ہے۔ کمپیوٹرسسٹم میں اگروائرس آجائے تووہ Windows کو بے کارکرکے رکھ دیتاہے۔اسی طرح انسان کی زندگی میں بھی اگر ناشکرے پن کا وائرس آجائے تو وہ اس کے سکون اور اطمینان کو ختم کردیتاہے۔رونے دھونے کی عادت سمندرمیں موجودبرفانی تودے کی طرح ہوتی ہے۔برفانی تودے کا90فی صد حصہ پانی میں ہوتاہے اور دس فی صد سطح سے اوپرہوتاہے۔زیر آب حصہ اس قدر سخت اور مضبوط ہوتاہے کہ اگر اس سے بحری جہا ز ٹکراجائے تو وہ تباہ ہوسکتاہے۔ہماری فطر ت برفانی تودے کے 90فی صد حصے کی طرح ہوتی ہے۔ہم بظاہر کتنی ڈرامہ بازی کرلیں، خود کو اچھا اور مثبت دکھانے کی کوشش کریں،پھر بھی اپنی فطرت کو نہیں چھوڑسکتے۔یہی وجہ ہے کہ ناقدرا اور ناشکر ا انسان اچھی زندگی گزارنے کے باوجود ہروقت روتا دھوتاہے۔یہ لوگ جہاں اپنی زندگی سے شکوہ کررہے ہوتے ہیں وہیں اپنے حالات کا ذمہ داردوسروں کوٹھہراتے ہیں۔یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کی وجہ سے میں ترقی نہیں کرسکا۔حالات میرے موافق نہیں ورنہ آج میں یہاں نہ ہوتا۔دوسروں کو الزام دینے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کررہا ہے۔اس کے اندر حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔آپ نے Middle Class Trapکے بارے میں سنا ہوگا۔یہ وہ جال ہے جس کی وجہ سے معاشرے کاایک طبقہ زندگی بھرجامد رہتاہے اور ترقی نہیں کرپاتا۔یہ لوگ Blame Game(الزام تراشی) کے عادی ہوتے ہیں۔ان لوگوں کو کچھ ملے یا نہ ملے، یہ اپنے آس پاس دیکھتے ہیں اور کسی بھی شخص پر اپنی ناکامی، محرومی اور نااہلی کاالزام لگادیتے ہیں۔انھیں اگر کوئی انسان نہ ملے تو پھر ”قسمت“توکہیں گئی نہیں، یہ تمام ملبہ قسمت پر ڈال دیتے ہیں۔دوسروں پر الزام لگانے سے اِن کی انا کو تسکین ملتی ہے۔اس کی وجہ سے یہ لوگ غلطی ماننے سے بچ جاتے ہیں۔
جب انسان یہ تسلیم کرتاہے کہ میں غلط تھاتو اس عمل سے اس کو سیکھنے کاموقع بھی ملتاہے،جس کی وجہ سے وہ خود کو بہتر اور قابل بناسکتاہے لیکن جو شخص اپنی غلطی نہیں مانتاوہ سیکھنے کا موقع ضائع کردیتاہے۔الزام تراشی کرنے والوں کی باتوں میں شکوہ بہت زیادہ ہوتاہے۔یہ آغاز شکایت سے کرتے ہیں اور اختتام بھی اسی پر کرتے ہیں۔یہ خود کودنیا کا مظلوم ترین انسان سمجھتے ہیں جس کے ساتھ ہر شخص زیادتی کررہاہے۔شکوہ شکایت کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اسے معلوم ہی نہیں کہ میرے اندر کس قدر خوبیاں ہیں اور میں اگرانھیں استعمال میں لے آؤں توکتنی کامیابیاں حاصل کرسکتاہوں۔
ایسے لوگوں پر منفی سوچ کا غلبہ ہوتاہے۔ان کے آس پاس بہت سی مثبت چیزیں موجود ہوتی ہیں لیکن ان کی نظر ہمیشہ منفی چیزوں پر ہوتی ہے۔جیسے سفید کپڑے پر اگر معمولی سا سیاہ داغ ہو تو یہ کپڑے کے اُجلے پن کوچھوڑکرصرف اس داغ کو دیکھیں گے۔منفی سوچ کی وجہ سے ان کے دماغ میں ہر وقت مسائل چلتے رہتے ہیں۔جس طرح چارہ کھانے کے بعد بھینس منہ چلاتی رہتی ہے، اسی طرح یہ لوگ بھی اپنے ذہن میں مسائل چباتے رہتے ہیں یہ لوگ مسائل سوچنے میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ انھیں حل نظر ہی نہیں آتا۔اس عادت کی وجہ سے یہ ہر وقت پریشانیوں میں گھرے رہتے ہیں۔اس کے برعکس جو شخص مسائل کے بجائے حل پر توجہ دیتاہے تو اس کے پاس امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور یہ امکانات اس کے لیے مواقع پیدا کرتے ہیں جنھیں کام میں لاکر نہ صرف وہ مسائل حل کرتاہے بلکہ زندگی میں ترقی بھی کرلیتاہے۔
اسٹیفن آرکوئے نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک کمپنی میں صبح جب ملازمین کام پر آئے تو ہر ایک کی میز پر خط پڑا ہواتھا جس پر لکھاتھاکہ تمہاری کامیابی اورترقی کا سب سے بڑ ا دشمن آج مرگیاہے اور شام پانچ بجے اس کا جنازہ ہے۔اس اطلاع پر لوگ بہت حیران تھے۔ شام کو تمام لوگ مقررہ جگہ پر پہنچے تووہاں ایک تابوت رکھا ہوا تھا۔ہر شخص مردے کا چہرہ دیکھنے کا خواہش مندتھا تاکہ معلوم کرسکے کہ وہ کون ساشخص ہے جو مجھ سے اتنی نفرت اور دشمنی کرتاتھا۔ایک ایک فرد آتا اور کپڑاہٹاکر مردے کا چہرہ دیکھتاتو اسے دھچکالگ جاتا،کیوں کہ تابوت میں میت نہیں تھی،وہاں آئینہ رکھا ہواتھا اور جو بھی تابوت میں دیکھتاتو اسے اپنا چہرہ نظر آتا۔ہمارے معاشرے میں بعض لوگوں کوکسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی ان کی عادات اور رویے ایسے ہوتے ہیں جوانھیں تباہ کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔انسان اپنے آپ کا سب سے بڑا دشمن ہوتاہے۔وہ اگراپنی انا اور نفس پر قابو پالے توپھربڑے سے بڑے دشمن کا مقابلہ کرنا بھی آسان ہوجاتاہے۔
اس لئے آپ بھی آج سے ہی اپنی سوچ کو بدلیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی سے ناشکراپن اور بے قد ری کو نکال دیں۔دوسروں کو قصور وار ٹھہرانے کی بجائے اپنی اصلاح پر دھیان دیں تاکہ کامیاب اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔